حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر کی 80 برس تھی ان کی زوجہ سارا سے ان کی کوئی اولاد نہ تھی مصر کی شہزادی 21 سال کی دوشیزہ ہاجرہ سے ان کی شادی ہوئی اللہ سے مانگ مانگ کر انہیں اولاد ہوئی بیٹا پیدا ہوا بیٹے کی عمر تیرہ برس ہوئی تو خواب میں بشارت ہوئی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ہاجرہ سے کہ بیٹے کو تیار کر دو ہمیں دوست کی دعوت پر جانا ہے ماں نے بیٹے کو تیار کر دیا راستے میں باپ اپنے بیٹے کو بتایا کہ میرے بیٹے
میں تمہیں اللہ کی راہ میں قربان کرنے جا رہا ہوں
جواب دیا اللہ کا حکم آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں کوئی اف
سانہ نہیں بلکہ حقیقت تھی یہ سچا واقعہ رونما ہونے جارہا تھا قیامت تک کے لئے عمر ہونے جارہا تھا کہ نبی اپنا ہردلعزیز بیٹا اللہ کے حکم سے اس کی راہ میں قربان کرنے جارہا ہے شیطان کو یہ گوارا نہ ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا اللہ کو راضی کرنے کے اور بھی طریقے ہیں آخر یہ ہی کیوں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شیطان کو پھتر مار کر بھگا دیا پھر حضرت اسماعیل کے پاس گیا اور نامراد ہوا پھر بی بی ہاجرہ کے پاس گیا انہوں نے جواب دیا میرا ایک اسماعیل ہے ہزار بھی ہوتے تو اللہ کی راہ میں قربان کر دیتی باپ نے بیٹے کو رسی سے باندھا گردن پر چھری رکھی بیٹے نے کہا بابا میری رسی کھول دو پریشان ہونے لگے بولے بیٹا تم نے تو کہا تھا کہ جو اللہ کا حکم ہو بیٹے نے جواب دیا ابا تاریخ لکھی جائے گی کہا جائے گا بیٹا ذبح نہیں ہونا چاہتا تھا اس لئے باپ نے اس کو رسیوں سے جکڑ کرذبح کیا رسی کھول دی گئی حضرت اسماعیل علیہ السلام بغیر ہلے ایسے ہی لیٹے رہے گلے پر مضبوطی سے چھری چلانے کی کوشش کی گئی لیکن نہ چلی آواز آئی مجھے حکم ہے کہ ایک بال بھی نہ کاٹے جیسے آگ کو حکم ہوا تھا کہ ٹھنڈی ہو جاؤ لیکن نبی کے دل میں اللہ کے حکم کو پورا کرنے کی لگن تھی چھری پتھر پر تیزکی دوبارہ چلائی گئی پوری طاقت کے ساتھ خون نکلا حضرت ابراہیم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے خواب کو پورا کردیا آنکھوں سے پٹی کھولی تو دیکھا حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک طرف کھڑے مسکرا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حضرت جبرائیل علیہ السلام کہہ رہے ہیں آپ نے اپنا خواب سچا کردیا آپ اپنے بیٹے کو ذبح کر ہی دیا تھا یہ اللہ کا حکم ہوا جو وہاں دنبہ آ گیا آپ اللہ کی آزمائش میں کامیاب ہوئے
سانہ نہیں بلکہ حقیقت تھی یہ سچا واقعہ رونما ہونے جارہا تھا قیامت تک کے لئے عمر ہونے جارہا تھا کہ نبی اپنا ہردلعزیز بیٹا اللہ کے حکم سے اس کی راہ میں قربان کرنے جارہا ہے شیطان کو یہ گوارا نہ ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا اللہ کو راضی کرنے کے اور بھی طریقے ہیں آخر یہ ہی کیوں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شیطان کو پھتر مار کر بھگا دیا پھر حضرت اسماعیل کے پاس گیا اور نامراد ہوا پھر بی بی ہاجرہ کے پاس گیا انہوں نے جواب دیا میرا ایک اسماعیل ہے ہزار بھی ہوتے تو اللہ کی راہ میں قربان کر دیتی باپ نے بیٹے کو رسی سے باندھا گردن پر چھری رکھی بیٹے نے کہا بابا میری رسی کھول دو پریشان ہونے لگے بولے بیٹا تم نے تو کہا تھا کہ جو اللہ کا حکم ہو بیٹے نے جواب دیا ابا تاریخ لکھی جائے گی کہا جائے گا بیٹا ذبح نہیں ہونا چاہتا تھا اس لئے باپ نے اس کو رسیوں سے جکڑ کرذبح کیا رسی کھول دی گئی حضرت اسماعیل علیہ السلام بغیر ہلے ایسے ہی لیٹے رہے گلے پر مضبوطی سے چھری چلانے کی کوشش کی گئی لیکن نہ چلی آواز آئی مجھے حکم ہے کہ ایک بال بھی نہ کاٹے جیسے آگ کو حکم ہوا تھا کہ ٹھنڈی ہو جاؤ لیکن نبی کے دل میں اللہ کے حکم کو پورا کرنے کی لگن تھی چھری پتھر پر تیزکی دوبارہ چلائی گئی پوری طاقت کے ساتھ خون نکلا حضرت ابراہیم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے خواب کو پورا کردیا آنکھوں سے پٹی کھولی تو دیکھا حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک طرف کھڑے مسکرا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حضرت جبرائیل علیہ السلام کہہ رہے ہیں آپ نے اپنا خواب سچا کردیا آپ اپنے بیٹے کو ذبح کر ہی دیا تھا یہ اللہ کا حکم ہوا جو وہاں دنبہ آ گیا آپ اللہ کی آزمائش میں کامیاب ہوئے
0 Comments